السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ
میری اللہ تبارک تعالی سے تہجد کے اس وقت دل کی گہرائیوں سے دعا ھے کہ اللہ تبارک تعالی ہم سب کو نماز کی حقیقت کو سمجھنے کی سمجھ کر عمل کرنے کی اور عمل کرکے اس خوبصورت دین اسلام کے رکن کو کائنات کے ہر کچے اور پکے مکان میں بسنے والے انسانوں تک پہنچانے کی توفیق عطا فرمائے آمین ثم آمین یارب العالمین*
کیا آپ جانتے ہیں کہ گھوڑوں کی ریس میں ایک گھوڑا اپنی طاقت اور کوشش سے اول نمبر پر آکر ریس جیت لیتا ہے جبکہ ایک گھوڑا وہ ہوتا ہے جو اول آنے والے گھوڑے کے پیچھے اور باقی گھوڑوں سے آگے ہوتا ہے
🌳انگریزی میں جس کو Runner up
کہا جاتا ہے۔ اس گھوڑے کی ذہنی حالت ، جذبہ او ر کوشش سب سے منفرد ہوتی ہے
🌳وہ اپنی پوری جسمانی قوت،ذہنی فوکس ، توجہ اورجنون میں ساری دنیا کو بھلا دیتا ہے۔ وہ اِردگِرد سے بے پرواہ اپنا مقصد پانے میں اس قدر محو ہوتاہے کہ اس وقت دنیا کی بہترسے بہترین چیز بھی اس کو اپنے مقصد سے نہیں ہٹاسکتی ۔
وہ اپنا ایک سٹیٹ آف مائنڈ بناکر ساری چیزوں سے بے نیاز ہوچکا ہوتاہے او روہ سٹیٹ آف مائنڈ(ذہنی کیفیت) یہ ہوتی ہے کہ میں نے ہر حال میں جیتنا ہے۔
عربی میں اس گھوڑے کو ’’مصلی‘‘ اور اس کی ذہنی کیفیت کو ’’صلا‘‘ کہا جاتا ہے
🌳شیر جب شکار کرنے نکلتا ہے تو چند منٹوں میں شکار کا فیصلہ نہیں کرتا، بلکہ سب سے وہ پہلے ریکی کرتا ہے ، پلاننگ کرتا ہے اور پھرباقاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ اپنے ہنر،طاقت اور پھرتیلے پن کو جسم میں جمع کرکے پوری قوت سے حملہ کرتاہے۔جب وہ شکار کو دیکھ کر اس کی طرف دوڑتا ہے تو اس وقت وہ بھی ’’مصلی‘‘ گھوڑے کی طرح اُس کیفیت میں ہوتا ہے کہ میں نے ہر حال میں شکار کو دَبوچنا ہے ۔
اس دوران جیسے بھی حالات آجائیں وہ اپنے شکار کو نہیں چھوڑ سکتا۔
ان مثالوں کے سمجھنے کے بعد یہ سمجھیے کہ نماز جس کو عربی میں ’’صلوٰۃ‘‘ کہا جاتاہے ،
🌳یہ لفظ صلوٰۃ اسی ’’کیفیتِ صلا ‘‘سے نکلا ہے ۔ ’’صلا‘‘ کی عملی شکل ’’صلوٰۃ‘‘ ہے ، جس کا مطلب ہے اپنی ذہنی ، قلبی اور جسمانی فوکس اور توجہ کے ساتھ اللہ کے سامنے پیش ہونا ، اس کے قانون اور احکامات کو ماننا اور اس کے سامنے سرنڈرہونا ۔
قرآن و حدیث میں بے شمار مقامات پر نماز کی تاکید آئی ہے اور یاددہانی کے لیے دِن میں پانچ بارنماز کا حکم دیا ہے۔
اسی سے استدلال کرتے ہوئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ زندگی میں جو بھی سبق ضروری ہوگا وہ پانچ بار ہوگا۔ صلوٰۃ یعنی نمازکا حکم دراصل یہ ہے کہ وہ ’’ذہنی کیفیت‘‘ پیدا کی جائے جو ہم نے ماقبل میں ذکرکی،
مگربدقسمتی سے ہم اس کیفیت کے ساتھ نماز نہیں پڑھتے۔ اللہ کے حکم کا منشاء یہ ہے کہ مومنین وہ ’’سٹیٹ آف مائنڈ‘‘ قائم کرکے نماز پڑھیں جو نماز کی اصل روح ہے۔
اس روحانی کیفیت کے بعد مومنین اپنی راہ سے بھٹکتے نہیں اور نہ ہی وہ گمراہ ہوتے ہیں ۔
🌳جب بھی آپ نے کسی لفظ کے معنی کو لینا ہو تو اس ڈکشنری اور علاقے سے لینا ہوگا جہاں وہ پیدا ہوا ہے۔
اگر کسی اور زبان و علاقے کے لفظ کو ہم اپنی مقامی زبان میں سمجھنے کی کوشش کریں گے تو وہ درست طریقے سے سمجھ میں نہیں آئے گا۔
اصل مخرج و ماخذ کو دیکھنا لازمی ہوتاہے۔
نماز دراصل ’’صلا‘‘ ہے اور ’’صلا‘‘ وہ ذہنی کیفیت ہے جس کو نماز کے دوران اورنماز کے باہر بھی قائم رکھنے کا حکم ہے ۔
اس کیفیت کا مطلب یہ ہے کہ بندہ اپنے خالق کو نہ بھولے۔
سٹیٹ آف مائنڈ ہونے کے ساتھ یہ حالتِ قلب بھی ہے کہ میں اپنے دل و دماغ سے یہ بات مان لوں کہ ایک ذات ایسی ہے جو حاکم اعلیٰ ہے اور میں اس کا محکوم ہوں ۔
ایک ذات ایسی ہے جو عبادت کے لائق ہے اور میں اس کی پرستش کرتا ہوں ۔
ایک ذات ایسی ہے جس کے کسی بھی حکم کو میں عقل سے پرکھ نہیں سکتا۔
اس کے احکامات کا نام وحی ہے جو انسانی علم و دانش اور عقل سے بالا چیز ہے ۔
جس پر کوئی سوالیہ نشان نہیں ہے بلکہ ہر صورت اس پر اعتماد کرنا ہے ۔
🌳کلمہ پڑھنے کے ساتھ مومن اس بات کا بھی اقرار کرتا ہے کہ میں اپنے رب پر اور اس کے بھیجے ہوئے نبی پر دلی اعتماد کرتا ہوں کیونکہ اعتمادِ ذاتِ رسول ﷺ ہی ایمان کی بقاء کی اولین شرط ہے۔
ایک سوال ذہن میں یہ اٹھتا ہے کہ دین اسلام کی نشر و اشاعت کے لیے عربی زبان اور سرزمینِ عرب کا ہی انتخاب کیوں کیا گیا؟
اس کی دو وجوہات تھیں ،
پہلی وجہ توان لوگوں کی زبان تھی عربی زبان اپنی فصاحت و بلاغت کے لحاظ سے باقی زبانوں سے ممتاز تھی ۔
🌳ایک آسمانی شریعت کے لیے اس وقت عربی سے زیادہ موزوں زبان نہیں تھی جو وحی کے احکامات کووقت کے تقاضوں کے مطابق پورا کرتے ہوئے انسانیت تک پہنچاتی
اس کی فصاحت کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ فقط …